جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں

فَعُولن فَعُولن فَعُولن


1920
جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے

مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن


2609
اے جہاں زاد، ​نشاط اس شبِ بے راہ روی کی​
میں کہاں تک بھولوں؟​
زور ِ مَے تھا،
کہ مرے ہاتھ کی لرزش
تھی ​کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا
تجھے حیرت نہ ہوئی!​

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


2523
کوئی دیتا ہے بہت دور سے آواز مجھے
چھپ کے بیٹھا ہے وہ شاید کسی سیّارے میں
نغمہ و نور کے اک سرمدی گہوارے میں
دے اجازت جو تری چشمِ فسوں ساز مجھے
اور ہو جائے محبت پرِ پرواز مجھے
اڑ کے پہنچوں میں وہاں روح کے طیّارے میں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1175
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیرِ غمِ الفت نہ کروں
اُس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں
سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں، خوگرِ آلام نہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
538